قدیم یونان سے آئے افسانوں کا مجموعہ، روایتی طور پر ایسپ (تقریباً چھٹی صدی قبل مسیح) کے نام سے منسوب، اپنے طنزیہ انداز اور گہرے اخلاقی اسباق کے لیے مشہور۔
ایک خطیب اپنی سیاسی تقریر کی بجائے ایک کہانی سناتا ہے تاکہ ایتھنز کے لوگوں کو ان کی لاپرواہی کا احساس دلائے۔
ڈیمیڈیز ایتھنز کے لوگوں کو سیاسی معاملات پر توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ بے دلی سے سنتے ہیں۔ وہ انہیں ایک کہانی سنانے کی اجازت مانگتا ہے، جس میں دیوی ڈیمیٹر، ایک ابابیل اور ایک بام مچھلی کا ذکر ہوتا ہے۔ جب وہ ایک دریا پر پہنچتے ہیں تو ابابیل اڑ جاتی ہے اور بام مچھلی پانی میں چلی جاتی ہے۔ ڈیمیڈیز خاموش ہو جاتا ہے، اور جب لوگ دیوی کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ ڈیمیٹر ان سب سے ناراض ہے کیونکہ وہ سیاست کی بجائے کہانیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
ڈیموس تھینیز ایتھنز کی اسمبلی میں ایک گدھے کے سائے کی کہانی سناتے ہوئے لوگوں کو سنجیدہ معاملات پر توجہ دینے کی یاد دہانی کراتا ہے۔
ڈیموس تھینیز ایتھنز کی اسمبلی میں اپنی تقریر کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے صرف چند الفاظ کہنے کی اجازت مانگتا ہے اور پھر ایک کہانی سناتا ہے: ایک نوجوان نے ایک گدھا کرائے پر لیا تاکہ وہ ایتھنز سے میگارا جا سکے۔ دوپہر کے وقت جب دھوپ تیز ہوتی ہے، نوجوان اور گدھے کا مالک دونوں گدھے کے سائے میں بیٹھنا چاہتے ہیں اور جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ کہانی ادھوری چھوڑ کر ڈیموس تھینیز چلنے لگتا ہے۔ لوگ اسے روک کر کہانی مکمل کرنے کی التجا کرتے ہیں۔ اس موقع پر وہ انہیں سمجھاتا ہے کہ وہ گدھے کے سائے جیسی معمولی باتوں میں تو دلچسپی لیتے ہیں لیکن سنجیدہ معاملات پر توجہ نہیں دیتے۔
ایک آزاد بھیڑیا کتے کی خوشحال زندگی دیکھ کر حیران ہوتا ہے، لیکن جب وہ پٹے کی قید کے بارے میں سنتا ہے تو وہ اپنی آزادی کو ترجیح دیتا ہے۔
ایک موٹا تازہ کتا جنگل میں ایک بھیڑیے سے ملتا ہے۔ بھیڑیا کتے کی خوشحالی دیکھ کر حیران ہوتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اسے اتنا کھانا کہاں سے ملتا ہے۔ کتا بتاتا ہے کہ اس کا مالک اسے کھانا دیتا ہے، لیکن اس کی گردن پر پٹے کے نشانات بھی ہیں۔ بھیڑیا جب پٹے کی قید کے بارے میں سنتا ہے تو وہ کتے کی زندگی کو ترک کر دیتا ہے، کیونکہ وہ اپنی آزادی کو سب سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔
ایک خچر گدھے کی خوشحالی پر رشک کرتا ہے، لیکن جب وہ اسے ڈرائیور کے ظلم کا شکار دیکھتا ہے تو اپنی رائے بدل لیتا ہے۔
ایک خچر ایک گدھے کو دھوپ میں کھڑا دیکھتا ہے اور اس کی اچھی صحت اور خوراک پر رشک کرتا ہے۔ بعد میں وہ دیکھتا ہے کہ گدھا بوجھ اٹھا رہا ہے اور ڈرائیور اسے ڈنڈے سے مار رہا ہے۔ خچر اس وقت اپنا نظریہ بدل لیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اب گدھے کی خوشحالی پر رشک نہیں کرے گا، کیونکہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
ایک جنگلی گدھا گدھے کا مذاق اڑاتا ہے، لیکن تنہائی میں شیر کا شکار بن جاتا ہے۔
ایک جنگلی گدھا گدھے کو دیکھتا ہے جو بھاری بوجھ اٹھا رہا ہوتا ہے اور اس کی غلامی پر مذاق اڑاتا ہے۔ جنگلی گدھا اپنی آزادی پر فخر کرتا ہے اور گدھے کو کم تر سمجھتا ہے۔ اچانک ایک شیر نمودار ہوتا ہے اور گدھے کے پاس موجود ڈرائیور کی وجہ سے اس پر حملہ نہیں کرتا۔ تاہم، جنگلی گدھا تنہا ہوتا ہے اور شیر اسے شکار کر لیتا ہے۔
ایک گدھے کی کہانی جو مرنے کے بعد بھی پجاریوں کے ہاتھوں ستم کا شکار رہا۔
گلی کے پجاری اپنے سامان کو لے جانے کے لیے ایک گدھے کا استعمال کرتے تھے۔ جب گدھا تھک کر مر گیا، تو انہوں نے اس کی کھال سے ڈھولک بنا لی۔ جب کسی نے پوچھا کہ ان کا پیارا گدھا کہاں ہے، تو پجاریوں نے جواب دیا کہ وہ سمجھتا تھا کہ مرنے کے بعد آرام ملے گا، لیکن اب بھی اسے مار پڑ رہی ہے۔
ایک غلام اپنے ظالم مالک سے بھاگ کر ایسپ سے ملتا ہے، جو اسے نصیحت کرتا ہے کہ بے گناہ مصیبت برداشت کرنا گناہگار ہونے سے بہتر ہے۔
ایک غلام اپنے ظالم مالک سے تنگ آ کر بھاگ نکلتا ہے اور راستے میں ایسپ سے ملتا ہے۔ وہ اپنی تکلیفوں کا ذکر کرتا ہے کہ اسے بھوکا رکھا جاتا ہے، مار پیٹ کی جاتی ہے اور اس کی عمر بھر کی محنت کے باوجود آزادی نہیں ملتی۔ ایسپ اسے سمجھاتا ہے کہ اگر وہ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی اتنی مصیبتیں جھیل رہا ہے تو گناہ کرنے کے بعد اس کی حالت اور بھی خراب ہو جائے گی۔ یہ سن کر غلام اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔
ایک کوا انسانوں کی غلامی سے بچنے کے لیے بھاگتا ہے، لیکن اپنی ہی لاپروائی سے موت کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایک شخص نے ایک کوے کو پکڑ کر اس کے پیر میں ڈوری باندھ دی تاکہ وہ اسے اپنے بچوں کو تحفے کے طور پر دے سکے۔ کوے نے انسانوں کے درمیان رہنا پسند نہیں کیا اور موقع ملتے ہی بھاگ نکلا۔ تاہم، جب وہ اپنے گھونسلے میں واپس پہنچا تو ڈوری شاخوں میں الجھ گئی اور وہ اڑنے سے قاصر رہا۔ مرتے وقت کوے نے اپنے آپ سے کہا، "میں کتنا بیوقوف تھا! انسانوں کی غلامی سے بچنے کے لیے میں نے خود اپنی موت کو دعوت دے دی۔"
ایک بھیڑ کا بچہ دو آدمیوں کے درمیان چناؤ کرتا ہے، ایک قصاب اور ایک چرواہا، اور اپنی عقل مندی سے اپنی حفاظت کرتا ہے۔
ایک قصاب اور ایک چرواہا راستے میں چل رہے تھے جب انہیں ایک موٹا تازہ بھیڑ کا بچہ نظر آیا جو ریوڑ سے بچھڑ گیا تھا۔ دونوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی۔ اس زمانے میں جانور بھی انسانوں کی زبان بولتے تھے، اس لیے بھیڑ کے بچے نے ان سے پوچھا کہ وہ اسے کیوں پکڑنا چاہتے ہیں۔ جب اسے معلوم ہوا کہ قصاب بھیڑوں کو ذبح کرتا ہے جبکہ چرواہا ان کی دیکھ بھال کرتا ہے، تو اس نے چرواہے کا انتخاب کیا اور قصاب کو اس کے خون آلود ہاتھوں کی وجہ سے مسترد کر دیا۔
ایک گدھا اپنے مالکوں سے ناراض ہو کر زئوس سے مدد مانگتا ہے، لیکن ہر نئے مالک کے ساتھ اس کی مصیبت بڑھتی جاتی ہے۔
ایک گدھا باغبان کے پاس کام کرتا ہے جو اسے بہت کم خوراک دیتا ہے۔ گدھا زئوس سے دعا کرتا ہے کہ اسے کسی اور مالک کے پاس بھیج دیا جائے۔ زئوس اسے ایک کمہار کے پاس فروخت کر دیتا ہے، جہاں گدھے پر مزید بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ پھر وہ زئوس سے دوبارہ مدد مانگتا ہے اور اسے ایک چمڑے کے کارخانے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں گدھے کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی پچھلی زندگی بہتر تھی، کیونکہ اب اس کی موت کے بعد اسے مناسب دفن بھی نہیں ملے گا۔
ایک بوڑھا آدمی اور اس کا گدھا دشمن کے حملے کے دوران ایک دلچسپ بحث میں پڑ جاتے ہیں۔
ایک بزدل بوڑھا آدمی اپنے گدھے کو چراگاہ میں لے جاتا ہے۔ جب دشمن کے حملے کی آواز سنائی دیتی ہے، تو بوڑھا خوفزدہ ہو کر گدھے کو بھاگنے کے لیے کہتا ہے۔ گدھا ضد کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا فاتح اس پر دو کجھاوں کے بجائے ایک ہی کجھا لادے گا؟ بوڑھا اس بات سے انکار کرتا ہے، تو گدھا کہتا ہے کہ پھر مالک بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے اگر بوجھ ایک ہی رہے۔
مینڈکیوں کو خدشہ ہے کہ بیلوں کی جنگ ان کے تالاب کو تباہ کر دے گی، کیونکہ ہارا ہوا بیل ان کی پناہ گاہ میں آ کر سب کو کچل دے گا۔
ایک مینڈکی اپنے تالاب سے باہر دیکھتی ہے کہ بیل ایک دوسرے سے جنگ کر رہے ہیں۔ وہ گھبرا جاتی ہے اور دوسری مینڈکیوں کو خبردار کرتی ہے کہ اگر کوئی بیل ہار جائے تو وہ تالاب میں پناہ لے گا اور اپنے بھاری پیروں سے سب کو کچل دے گا۔ دوسری مینڈکی سمجھتی ہے کہ یہ جنگ ان سے دور ہے، لیکن پہلی مینڈکی وضاحت کرتی ہے کہ جنگ کا نتیجہ ان کی زندگیوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
ایک چھوٹا ہرن جنگل میں ایک غصے سے دیوانہ شیر کو دیکھتا ہے اور پریشان ہو جاتا ہے کہ اب کیا ہو گا۔
جنگل میں ایک شیر غصے سے دیوانہ ہو جاتا ہے۔ ایک چھوٹا ہرن اسے دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ شیر پہلے ہی خطرناک تھا، اب تو وہ اور بھی زیادہ خوفناک ہو گیا ہے۔ ہرن کو ڈر ہے کہ شیر اب کسی کو بھی نہیں چھوڑے گا۔
شیر اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تین ساتھیوں کا شکار اکیلا ہڑپ کر جاتا ہے۔
ایک گائے، بکری اور بھیڑ نے شیر کے ساتھ مل کر رہنے کا فیصلہ کیا۔ جنگل میں انہوں نے ایک بڑا ہرن شکار کیا اور اسے چار حصوں میں تقسیم کیا۔ شیر نے پہلا حصہ بادشاہ ہونے کے حق میں، دوسرا حصہ شراکت دار ہونے کی وجہ سے، تیسرا حصہ سب سے طاقتور ہونے کی وجہ سے اپنے نام کر لیا، اور چوتھے حصے کو چھونے والے کے لیے دھمکی دی۔ اس طرح شیر نے سارا شکار اپنے لیے لے لیا۔
شیر، بھیڑیا اور لومڑی کے درمیان شکار کی تقسیم پر ہونے والی چالاکی اور سزا کی کہانی۔
شیر، بھیڑیا اور لومڑی نے مل کر شکار کیا۔ تقسیم کے وقت بھیڑیے نے انصاف سے کام لیتے ہوئے ہر ایک کو اپنا شکار دینے کی کوشش کی، مگر شیر کے غصے کا شکار ہوا۔ لومڑی نے چالاکی سے شیر کو خوش کرتے ہوئے تمام شکار اس کے حوالے کر دیا، اور بھیڑیے کی سزا سے سبق سیکھا۔
ایک چالاک شیر اپنی بھوک مٹانے کے لیے جانوروں سے اپنی سانس کے بارے میں پوچھتا ہے اور انہیں ہلاک کر دیتا ہے، لیکن ایک بندر کی چالاکی بھی کام نہیں آتی۔
شیر جنگل کا بادشاہ بننے کے بعد انصاف پسند بننے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اپنی فطرت کو بدل نہیں پاتا۔ وہ جانوروں سے اپنی سانس کے بارے میں پوچھتا ہے اور جو بھی جواب دیتا ہے، اسے ہلاک کر دیتا ہے۔ ایک بندر شیر کی تعریف کرتا ہے، مگر شیر اسے بھی کھا جاتا ہے۔ یہ کہانی ظاہری انصاف اور حقیقی فطرت کے تضاد کو ظاہر کرتی ہے۔
ایک چالاک لومڑی بیمار شیر کے سامنے بھیڑیے کو اس کی سازش کے لیے سزا دلاتی ہے۔
شیر بوڑھا اور بیمار ہو کر اپنی غار میں لیٹا ہوا تھا۔ تمام جانوروں نے اس کی عیادت کی، سوائے لومڑی کے۔ بھیڑیے نے موقع غنیمت جان کر شیر کے سامنے لومڑی کی شکایت کی کہ وہ بادشاہ کا احترام نہیں کرتی۔ لومڑی نے وہاں پہنچ کر اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ شیر کے لیے دنیا بھر سے علاج ڈھونڈ رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اگر ایک زندہ بھیڑیے کی کھال اتار کر شیر کو لپیٹ دی جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ شیر کے حکم پر بھیڑیے کو مار دیا گیا اور لومڑی نے کہا کہ اپنے مالک کو خوش رکھنا چاہیے نہ کہ ناراض۔
ایک چالاک لومڑی شیر کی چال کو سمجھ جاتی ہے اور اپنی عقل سے بچ نکلتی ہے۔
ایک بوڑھا اور کمزور شیر دوسرے جانوروں کو کھانے کے لیے بیمار ہونے کا بہانہ کرتا ہے۔ جب لومڑی اس سے ملنے آتی ہے، تو وہ غار کے اندر جانے کی بجائے باہر سے ہی سلام کرتی ہے۔ شیر کے پوچھنے پر وہ بتاتی ہے کہ اس نے غار میں جانے والے جانوروں کے نشانات تو دیکھے ہیں، مگر باہر آنے والوں کے نہیں۔ اس طرح لومڑی شیر کی چال کو بھانپ کر اپنی جان بچا لیتی ہے۔
ایک شیر اپنے دوست لومڑی کے ساتھ مہمان نوازی کرتا ہے، لیکن باندر کی تقسیم سے لومڑی کی خوشیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔
شیر اپنے غار میں جانوروں کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اپنے دوست لومڑی کے ساتھ خوشی سے رہتا ہے۔ باندر کھانے کی تقسیم کرتا ہے، لیکن جب نئے مہمان آتے ہیں تو لومڑی کو پرانا کھانا ملتا ہے۔ ایک دن لومڑی غمگین ہو جاتی ہے اور شیر کو بتاتی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اسے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ شیر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ یہ باندر کی غلطی ہے۔
ایک انصاف پسند شیر بادشاہ کے دور میں کمزور جانور بھی طاقتوروں سے بے خوف ہو جاتے ہیں۔
ایک شیر بادشاہ جو نرم دل اور انصاف پسند تھا، اپنے دور میں تمام جنگلی جانوروں کے درمیان انصاف کرتا تھا۔ بھیڑیے، چیتے اور شیر جیسے طاقتور جانوروں کو ان کے مظالم کی سزا ملتی تھی۔ آخرکار تمام جانوروں میں امن قائم ہو گیا۔ ایک کمزور خرگوش نے خوشی سے کہا کہ اب وہ دن آ گیا ہے جب کمزور بھی طاقتوروں سے بے خوف ہو گئے ہیں۔